
🥀ایک ڈاکٹر کہتی ہے میں ڈیوٹی پر مامور تھی خودکشی کا ایمرجنسی کیس آیا
لڑکی کا نام آمنہ تھا
میں نے آٹھ سال کے کیریئر میں ایسی خوبصورت لڑکی پہلی بار دیکھی تھی
وہ بے ہوشی کی حالت میں تھی اس کو اٹھا کر لے کے آنے والے اس کے والد تھے
والد ماشاءاللہ بہترین پرسنلٹی کے مالک تھے
مگر بیٹی کی حالت میں ان کو اس وقت بے حال کر دیا تھا
پتہ نہیں کیوں مجھے لڑکی کا پیار اور اس کے والد پر بہت رحم آیا تھا
لڑکی کو آپریشن تھیٹر لے کے آیا گیا
آپریٹ کر کے اس کو دوسرے وارڈ میں شفٹ کر دیا گیا
گھر والوں کو بتایا گیا کہ لڑکی کی حالت خطرے سے باہر ہے
یہ سن کر لڑکی کا والد غربا میں کچھ تقسیم کرنے نکل گیا
میں نے اس کی والدہ کو آفس میں بلایا اور پوچھا کہ آپ کی بیٹی کو کیا ہوا ہے
مختصرا لڑکی کی والدہ نے جو مجھے کہانی سنائی وہ کچھ یوں تھی
کیا ہماری بیٹی نے ٹیکسٹائل انجینئرنگ کر رکھی ہے
سارے والدین کی طرح ہماری بھی خواہش تھی کے ہماری بیٹی بھی اپنے گھر کی ہو جائے
چنانچہ ہم نے آمنہ کی پسند پوچھی ہماری بیٹی نے مشرقی لڑکیوں کی طرح بولاکہ جوآپ کا فیصلہ ہوگا
وہی میرا فیصلہ ہوگا
اس نے سارا اختیار ہم کو دے دیا
چنانچہ کے رشتے کی بات چلائی
آمنہ کو دیکھنے ایک فیملی آئی
لوازمات اور خدمات سے مستفید ہونے کے بعد عورتیں آمنہ کے کمرے میں گئیں
ایک نے آمنہ کے ہاتھ سے چائے پینے کی فرمائش کی
اس کے بعد وہ لوگ چلے گئے چند دن بعد بغیر کچھ بتائے رشتے سے انکار کر دیا
آمنہ کے لیے پہلی بار تھا جب وہ ریجیکٹ ہوئی
مگر ماں باپ کی تسلی نے آمنہ کو بہت حوصلہ دیا
ایک بار پھر آمنہ کو دیکھنے فیملی آئی
چائے پینے کے بعد اجازت چاہی اور کچھ دن بعد یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ لڑکی کو مہمان نوازی نہیں آتی
کیونکہ اس نے لڑکے کی ماں کو ٹیبل سے اٹھا کر چائے پیش نہیں کی
بلکہ عام مہمانوں کی طرح ٹیبل پر چائےرکھ دی
اس انکار کے ساتھ آمنہ اور آمنہ کے والد بھی اندر سے ٹوٹ پھوٹ گئے
اللہ کی رضا سمجھ کر صبر کیا
کچھ دنوں بعد ایک نئی فیملی آئی اس فیملی کے بیٹھتے ہی آمنہ نے ان کے پاؤں کے جوتے بھی اتارے
اور اُسی جگہ چائے پیش کی
اس فیملی نے ایک ہفتے بعد یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کیا
آپ کی بیٹی پر جنات کا سایہ ورنہ کوئی میزبان پہلی بار گھر آتا ہے تواس کی آتنی مہمان نوازی کون کرتا ہے
پچھلے آٹھ سالوں میں سو سے زائد رشتے آئے آمنہ کے لیے
کچھ نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کے آمنہ کی عمر زیادہ ہو گئی ہے
اور احسان جتاتے ہوئے کہا اگر آپ زیادہ مجبور ہیں تو ہمارا ایک 48 سال کا بیٹا جس کی اپنی دکان ہے اس کے لیے ہم آمنہ کا رشتہ قبول کرتے ہیں
اتنا کہتے یہ آمنہ کی ماں سسکیاں لے کر رونے لگی
اور کہا آپ بھی تو ایک ماں ہیں اور ماں جتنی بھی مجبور ہوں غیروں کے سامنے کیا کہہ سکتی ہے
اور میری بیٹی کل سارا دن میرے سینے سے لگ کر روتی ہے
اور کہتی رہی ان لوگوں کے معیار تک آتے آتے میری عمر زیادہ ہو گئی ہے
اور ماں بولیں نہ جانے کب اس نے دنیا کو کو الوداع کرنے کا فیصلہ کرلیا
اور کہتی رہی میرا منحوس سایہ میری بہن کو بھی والد کی دہلیز پر بوڑھا کر دے گا
میں نے آمنہ کی والدہ کو پانی پلایا اتنے۔
میں اس کا والد اور پیچھے سے وارڈ بوائے کمرے میں داخل ہوا
اور واڈبوائے نے کہا آمنہ ہوش میں آ گئی ہے
آمنہ کی والدہ بجلی کی تیزی سے وارڈ میں داخل ہوئے آمنہ کا سر اٹھایا اور سینے سے لگا کر رونے لگی اتنے میں میں اور آمنہ کا باپ بھی وارڈ میں داخل ہوئے
آمنہ ماں کو چھوڑ کر باپ کے گلے لگ کر رونے لگی
اور کہنے لگی بابا بیٹیاں بوجھ ہوتی ہیں
پاپا آپ نے مجھے کیوں بچایامجھے مرنے دیتے تاکہ میرا منحوس سایہ گھر سے نکلے اور گڑیا کی شادی ہو
نہیں تو وہ بھی آپ کی دہلیز پر پڑی رہے گی اور بوڑھی ہو جائے گی
آمنہ کا باپ چپ چاپ آنسو بہہ رہا تھا
میں نے حالات آؤٹ آف کنٹرول ہوتے دیکھے تو میں نے آمنہ کو انجنکشن دے دیا اور آمنہ کے والد کو لے کر آفس میں آگئی
میں نے آمنہ اور اس کی چھوٹی بہن کو اپنے دونوں بھائیوں کے لیے مانگ لیا
آمنہ کے والد کی آنکھیں آچانک برسنے لگی مگر اب وہ آنسو خوشی کے تھے
میرے دونوں بھائی بھی ڈاکٹر تھے میں نے ان کو اپنا فیصلہ سنا دیا وہ دونوں خوشی سے قبول کر چکے تھے
ویسے یہ تحریر لکھ کر میں آپ لوگوں سے یہ ااتجا کر رہا ہوں
*ہم لوگ
شادی ایک عورت سے کر تے ہیں کسی حور سے نہیں
کسی کی بیٹی کو ریجیکٹ کرنے سے پہلے اس کی جگہ اپنی بیٹی کو رکھ کر سوچیں
ایک مرد ہونے کے ناطے یہ دعوے سے کہہ سکتا ہوں اگر عیب کے بنا پر ریجیکٹ کرنا ہو تو لڑکیوں سے دوگنی تعداد میں لڑکے ریجیکٹ ہونگے
اپنی آراء سے کمنٹس میں آگاہ کریں بہت شکریہ