
“ایک خاموش دھوکہ — جو ہم روز کھاتے ہیں!”
1930ء کی دہائی کا ایک سرد دن تھا۔ نیویارک کی گلیوں میں لوگ اپنے گرم کوٹوں میں لپٹے دکانوں کی رونق بڑھا رہے تھے۔ ایک چھوٹی سی پرانی سی کپڑوں کی دکان، “Sid & Harry’s Tailors” کے باہر بھی کچھ گاہک کھڑے تھے۔ یہ دکان بظاہر عام سی لگتی تھی، مگر اس کے اندر ہر روز ایک غیر معمولی کھیل کھیلا جاتا تھا… ایک ایسا کھیل جو آج بھی، ہاں آج بھی، ہر دکان، ہر برانڈ اور ہر آن لائن سیل میں ہم سب کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے۔
سِڈ، ایک خوش مزاج، باتونی سیلز مین تھا۔ وہ گاہکوں کو باتوں میں ایسا الجھاتا کہ وہ خود کو خوش قسمت سمجھنے لگتے۔ اور ہیری، خاموش طبع مگر ماہر درزی، ہمیشہ سلائی کی میز پر جھکا ہوتا۔ دونوں بھائیوں نے مل کر ایک “طریقہ” بنا رکھا تھا… ایک ایسا طریقہ جس نے ان کی سیل کو آسمان تک پہنچا دیا۔
“غلط سننے کی اداکاری” — مگر اثر بہت گہرا تھا
ایک دن، ایک نوجوان دکان میں داخل ہوا۔ اُس نے ایک خوبصورت سوٹ پہنا، آئینے کے سامنے خود کو گھمایا اور کچھ لمحوں تک وہیں ٹھٹک گیا۔ شاید اُسے سوٹ پسند آ گیا تھا۔ سِڈ نے موقع بھانپا۔ وہ بولا:
“ہیری! یہ والا سوٹ کتنے کا ہے؟”
ہیری نے معمول کے مطابق اونچی آواز میں جواب دیا:
“بیالیس ڈالر!”
سِڈ نے ماتھے پر بل ڈال کر دوبارہ پوچھا:
“کیا کہا؟”
ہیری نے اس بار اور زور سے کہا:
“بیالیس ڈالر!”
سِڈ نے مسکرا کر گاہک کی طرف دیکھا:
“اوہ، وہ کہہ رہا ہے بائیس ڈالر!”
نوجوان کا چہرہ کھل اٹھا۔ اُس نے فوراً پیسے نکالے، سوٹ پیک کروایا اور تیزی سے دکان سے نکل گیا۔ وہ اندر ہی اندر خوش تھا کہ شاید دکاندار سے کوئی غلطی ہو گئی ہے اور اُس نے بڑا “فائدہ” حاصل کر لیا ہے۔
مگر سچ یہ تھا کہ…
دھوکہ دینے والا وہی تھا — اور دھوکہ کھانے والا بھی۔
“کیا ہم بھی ایسے دھوکے کھاتے ہیں؟”
جی ہاں، ہم روزانہ ایسی چالوں کا شکار ہوتے ہیں۔ شاید اتنی وضاحت سے نہیں، لیکن “Contrast Effect” کا استعمال ہر جگہ ہوتا ہے۔
📌 جب کوئی چیز پہلے “بہت مہنگی” دکھائی جائے اور پھر فوراً “کم قیمت” بتائی جائے، تو ہم خوشی سے خرید لیتے ہیں — یہ سمجھے بغیر کہ شاید وہ قیمت بھی اصل سے زیادہ ہے۔
“میری اپنی زندگی کا واقعہ”
کچھ ماہ پہلے، میں نے ایک مہنگی جیکٹ خریدی۔ قیمت 9000 روپے تھی۔ سیلز مین نے بتایا کہ “اصل قیمت 14000 ہے، مگر سیل چل رہی ہے۔”
میں فوراً مائل ہو گیا — یہ سوچے بغیر کہ کیا یہ جیکٹ واقعی 9000 کی بھی ہے یا نہیں؟
بعد میں پتا چلا… وہی جیکٹ ایک اور دکان پر بغیر کسی سیل کے ہی ہمیشہ 8500 میں ملتی تھی۔
تب احساس ہوا… ہم اکثر “بچت” نہیں کرتے، ہم صرف “احساسِ بچت” خریدتے ہیں۔
“یہی ذہنی دھوکہ ہماری جیب خالی کرتا ہے”۔
60 لاکھ کی گاڑی لیتے ہوئے 75 ہزار کی سیٹیں معمولی لگتی ہیں، 1200 والا جوتا، جب 800 میں ملے، تو ہم فوراً لے لیتے ہیں
مہنگائی جب دھیرے دھیرے بڑھتی ہے، تو ہمیں محسوس ہی نہیں ہوتا
حکومت اگر 30% ٹیکس ایک دن میں لگا دے، تو ہم احتجاج کریں گے مگر جب ہر چیز روز تھوڑی تھوڑی مہنگی ہو، ہم چپ رہتے ہیں!
“کیا واقعی ہم سمجھدار خریدار ہیں؟”
یہ کہانی ہمیں ایک آئینہ دکھاتی ہے۔
ہم میں سے ہر کوئی کبھی نہ کبھی سِڈ کے اس “غلط سننے” والے دھوکے کا شکار ہوا ہے۔
اب وقت ہے کہ:
✅ چیزوں کو قیمت سے نہیں، ضرورت سے تولیں۔
✅ ڈسکاؤنٹ یا آفر کے پیچھے سوچ کو سمجھیں۔
✅ ہر خریداری سے پہلے خود سے ایک سوال کریں:
“کیا میں یہ چیز خریدتا اگر اسے مہنگی چیز کے ساتھ نہ رکھا جاتا؟”
“یہ کہانی فقط پرانی دکان کی نہیں… یہ آج کی مارکیٹنگ کی روح ہے”
اگر ہم نے آنکھ نہ کھولی، تو ہر سیل، ہر آفر، ہر اشتہار ہمیں خوش فہمی میں ہی مبتلا رکھے گا… اور ہم خوشی خوشی اپنی جیب خالی کرواتے رہیں گے۔
سوچیئے…! کہیں آپ بھی وہ نوجوان تو نہیں، جو “بائیس ڈالر” کی خوشی میں “بیالیس ڈالر” کا نقصان کر رہا ہے؟
اگر یہ کہانی آپ کے دل پر اثر انداز ہوئی ہے، تو اسے شیئر کریں۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کے شیئر سے کسی کا آج کا فیصلہ بہتر ہو سکتا ہو۔